(ایجنسیز)
فرانس اور اس کے ساتھ بہت سارے معاہدے میں بندھے ہوئے اسلامی ملک مراکش کے درمیان سخت ناراضگی کی لہر سامنے آگئی ہے۔ اس ناراضگی کا سبب امریکا میں فرانس کے سفیر فرانسیس ڈیلترے کا یہ کھلا اظہار بنا ہے کہ ''مراکش فرانس کی ایسی بیوی ہے جس کے ساتھ فرانس بلا ناغہ شب باشی کرتا ہے۔''
مراکشی حکومت نے اس ''انداز گفتگو'' کو تکلیف دہ اور توہین آمیز قرار دیا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر فرانسیسی صدر کے خصوصی نمائندہ برائے تحفظ سیارگان کا طے شدہ دورہ مراکش ملتوی کر دیا گیا ہے اور فرانس میں مراکشی سفیر نے اس نامناسب پیرایہ اظہار پر فرانس کے متعلقہ حکام سے استفسارات کیے ہیں۔
بتایا گیا ہے امریکا میں فرانس کے سفیر نے سپین کے ایک فلم ساز ور اداکار جویربارڈیم کی طرف سے متنازعہ مغربی صحارا پر تیار کی جانے والی ایک دستاویزی فلم کیلیے بات کرتے ہوئے کہا ہے'' کہ مراکش فرانس کی ایسی بیوی ہے جس کے ساتھ فرانس کی طرف سے روزانہ شب باشی کی جاتی ہے۔''
مراکش کے وزیر اطلاعات نے اس بارے میں '' العربیہ '' سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس میں ہمارے سفیر نے فرانس کی وزارت خارجہ سے اس بارے میں بات کی ہے اور کامیابی سے مراکش کا نقطہ نظر پہنچایا ہے تاکہ فرانس کی طرف سے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
وزیر اطلاعات خلفی نے اس
اعتماد کا اظہار کیا کہ فرانس مناسب اقدامات کرے گا تاکہ اس نا انصافی اور نقصان کا ازالہ ہو جائے جو فرانس کے سفیر سے منسوب کردہ بیان سے ہوا ہے۔ تاہم مراکشی وزیر نے یہ اظہار بھی ضروری سمجھا کہ امریکا میں سفیر نے ابھی تک اس بیان کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
مراکش کے مرکز برائے سٹریٹجی کے سربراہ نے ''العربیہ'' سے بات کرتے ہوئے کہا '' مراکش اور فرانس کے درمیان بہترین سفارتی اور معاشی تعلقات موجود ہیں نہ جانے اس طرح کی صورت حال پیدا کر کے کس کے مفادات پورے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔''
انہوں نے مزید کہا ''سخت اور فوری رد عمل ظاہر کرتا ہے کہ مراکش کسی بھی اتحادی کی طرف سے اپنی عزت اور وقار کو لگنے والا دھچکا برداشت نہیں کرے گا۔''
دوسری جانب فرانس کی وزارت خارجہ نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے مغربی دنیا کی بعض ذمہ دار شخصیت اپنے اتحادی اسلامی ممالک کے بارے میں ایسے ریمارکس دے دیتے ہیں، جو دوطرفہ تعلقات اور متعلقہ اسلامی ملکوں کیلیے سخت توہین آمیز ہوتے ہیں ۔ ایسے بیانات پر اسلامی ملکوں کی نئی نسل کی پریشانی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح کا ایک توہین آمیز بیان چند برس پہلے ایک امریکی عدالت کے جج نے پاکستانیوں کے بارے میں دیا تھا، جس پر بحث کئی دن جاری رہی تھی۔